Wednesday 12 October 2016

تعویذ پہننا جائز ہے

تعویذ کی لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" ہے. (مصباح اللغات : ٥٨٣) فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے. (المنجد : صفحہ ٥٩٣) دوسرے لفظوں میں آپ اسے اسم کے حساب سے "تحریری دعا" کہہ لیجئے. جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثرپذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی "تحریری دعا" کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے. مَثَلاً : حدیثِ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) پر لبید بن اعصم یہودی کے کیے ہوۓ سحر (جادو) کے اثرات ختم کرنے کے لئے وحی الہی کی ہدایت پر آپ (صلی الله علیہ وسلم) پر "معوذتين" یعنی سوره الفلق اور سوره الناس کا تلاوت کرنا، (تفسیر ابن عباس) صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری (رضی الله عنہ) سے مروی وہ حدیث جس میں انہوں ایک سفر میں سورہ الفاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عمل سے سانپ کے کاٹے ہوۓ ایک مریض کا علاج کیا تھا اور وہ تندرست ہوگیا تھا اور بعد میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سارا واقعہ سنکر سورہ الفاتحہ کی اس تاثیر کی تصدیق فرمائی تھی.





















چونکہ تمیمہ بھی (پناہ حاصل کرنے کے لئے) گلے میں لٹکایا جاتا، تو اسے بھی تعویذ کہا جانے لگا، جبکہ  تعویذ میں اسماء اللہ تعالیٰ یا ادعیہٴ ماثورہ ہوں اور اس کو موٴثر حقیقی نہ سمجھا جاتا ہو (صرف الله کو موثر حقیقی مانتے بطور سبب کے تعویذ اختیار کیا جاتا ہو) تو اس قسم کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا تحکم و زیادتی ہے، اس لیے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب حدیث سے ملتی ہے، (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، مرقات شرح المشکاة، ص:۳۲۱ و ۳۲۲، ج۸، الترغیب والترہیب، ج۵ ص۲۷۱، ابوداوٴد شریف، ج۲، ص۹۲ وغیرہا) لہذا بعض لوگوں کا تعویذ پہننے کو مطلقاً شرک قرار دینا غلط ہے.

جہاں تک ان احادیث كا تعلق ہے جس میں آپ (صلی الله علیہ وسلم) نے تعویذ لٹکانے سے منع فرمایا ہے تو یہ اس صورت پر محمول ہیں،

١) جب کہ اس میں غیر اللہ سے استمداد چاہی گئی ہو، جس میں شرکیہ و کفریہ کلمات لکھے ہوں،

٢) یا تعویذ کو موٴثر بالذات (ذاتی طور اثر رکھنے والا)، نافع (نفع دینے والا) اور ضار (نقصان دینے والا) سمجھا جائے جیسا کہ لوگ زمانہٴ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے

٣) یا وہ عجمی زبان میں لکھے ہوں تو ان کے معنی معلوم نہ ہوں.

لیکن اگر اسمائے حسنیٰ اور دیگر آیاتِ قرآنیہ و ادعیہٴ ماثورہ لکھ کر لٹکایا جائے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ بلکہ موثر حقیقی صرف الله تعالیٰ کو مانا جاۓ اور اس دم و تعویذ کو صرف سبب کے درجہ میں سمجھا جاۓ (جیسا کہ بیماری میں دوا وغیرہ کرانا).

عن جابر رضی اللہ عنہ السئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النشرة فقال ہو من عمل الشیطان رواہ أبوداوٴد قال العلي القاري فی المرقاة النوع الذي کان من أہل الجاھلیة یعالجون بہ ویعتقدون فیہ وأما ما کان من الآیات القرآن والأسماء والصفات الربانیة والدعوات والماثورة النبویة فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذًا أو رقیة أو نشرة (مرقاة : ج۸ ص۳۶۱)

علاج بالقرآن پر اجماع ہے: دیکھئے بخاری شریف کے حاشیہ پر (حاشية بخاري : ١/٣٠٤) لکھا ہے: "فيه جواز الرقية وبه قالت الأئمة الأربعة" یعنی "رقیہ کے جواز پر ائمہ اربعہ قائل ہیں".

فتاویٰ علماۓ : حدیث ج ١٠، ص ٨٢ ، کتاب الایمان و العقائد : "کچھ شک نہیں کہ نفس دم (رقیہ) یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب (تولہ) کی  نہیں بلکہ ان کی بعض  قسمیں شرک ہیں ؛ اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا".[صحيح مسلم  » كِتَاب السَّلَامِ  » بَاب لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ...رقم الحديث: 4086]
فتاویٰ ثانیہ : ج ١ ، ص  ٣٣٩ ، باب اول : عقائد و مہمات دین : "مسئلہ تعویذ میں اختلاف ہے ، راجح یہ ہے کہ آیات یا کلمات صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان . صحابہ کرام نے ایک کافر بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا.

No comments:

Post a Comment